بھلا کیا بُرایی ہوتی۔ تُو جو میرا یار ہوتا
مِرا ہم نوا بھی ہوتا۔ مِرا ہم کنار ہوتا
یہاں جینا ہے بشر بن۔ گو طویل کارِ محنت
بنا ہوتا آساں میں جو۔ مُشتِ غُبار ہوتا
یہ طوالتِ الم ہے۔ بسی نس بہ نس میں میری
نہ جو رُخ فگار ہوتا۔ دلِ داغ دار ہوتا
حُسنِ درخشاں کی یُوں۔ ادا ہے شکار کرنا
کمیں گاہِ نظروں سے چل پڑا کاش وار ہوتا
کبھی حسرتوں سے کویی۔ کہیں دیکھوں عارضِ گُل
اُسی کا ہی خار ہے جو۔ یہ جگر کے پار ہوتا
نہ رہا تھا گر جگر یا۔ یہ دماغ پاس اپنے
تو یہ جانا ہرسو اپنا۔ دلِ بد قمار ہوتا
ہے رکھا جو ہم نے اپنا۔ عیاں پاسِ وضعِ پرہیز
نہ کیا جو ہوتا دل بھی۔ بے کس الدیار ہوتا
اُڑے ریگ رشکِ ویراں۔ تو عُبید دیکھنا تُو
یہاں موج میں یہ دیدہ۔ ترا شعلہ بار ہوتا

47