| سفید لباس میں وقار لیے بیٹھی ہوں |
| میں عکسِ وقت کی دیوار لیے بیٹھی ہوں |
| لبوں پہ خامشی، آنکھوں میں روشنی ہے مری |
| میں اپنی ذات کا اظہار لیے بیٹھی ہوں |
| نہ کوئی تاج، نہ دستار کی ہوس مجھ کو |
| میں سر پہ حرف کا سنگھار لیے بیٹھی ہوں |
| بدن پہ نور کی پوشاک سی لپٹی ہے |
| میں برف بنتی ہوئی نار لیے بیٹھی ہوں |
| نظر جھکائے کوئی دیکھ بھی نہیں سکتا |
| میں آئینہ ہوں، شرر بار لیے بیٹھی ہوں |
| یہ زیور و نگینہ، صرف اشارے ہیں |
| میں اک ہنر کی نمونہ کار لیے بیٹھی ہوں |
| کسی کی آنکھ کا احسان نہیں ہے مجھ پر |
| میں اپنی ذات کا اعتبار لیے بیٹھی ہوں |
| یہ میرا ظرف ہے، زخموں کو ہنر کہتی ہوں |
| میں شاکرہ ہوں، اسرارلیے بیٹھی ہوں |
معلومات