خدا بننے سے پھر اس کو بھلا اب کون روکے گا |
مگر اے کاش پہلے آدمی انسان ہو جائے |
بتا بسمل کا تیرے نشتروں سے حال کیا ہوگا |
جو تجھ کو دیکھتے ہی دفعتاً بے جان ہو جائے |
ازل میں جیسے سنورا تھا ہاں ویسے ہی سنور کر آ |
ہاں پھر میری شہادت کا وہی سامان ہو جائے |
اب اس کی سادگی کو ہم بھلا کس خانے میں رکھیں |
وہ مجھ کو قتل کر کے آپ ہی ان جان ہو جائے |
تو یہ جلوہ گہِ جلوائے جاناں نہ رہ سکتا |
اگر وہ شوخ میرے دل کا یوں مہمان ہو جائے |
اے حشرِ جلوہ اب تم آؤ کہ اس دل کو چین آئے |
ہماری بے کلی پہ آپ کا احسان ہو جائے |
تو اس سے پہلے میرے حال پر تھوڑی توجہ کر |
کہ تیرے کفر پہ قرباں مرا ایمان ہو جائے |
مرا دل کر رہا ہے عشق میں فتنہ بھی یوں برپا |
کہ میرے عشق پہ یہ حسن بھی حیران ہو جائے |
معلومات