دل پہ جو گزرے ہیں حالات رقم کرتے ہیں
اک نیا موڑ جہاں نظریں ملی تھیں ان سے
کیا پتہ تھا وہیں قزاق اجل بیٹھا ہے
جان و ایمان لٹا آہ لٹی چاہ لٹی
دل کو بتلاتا کہ چوروں کا بدل بیٹھا ہے
ہم نے سوچا تھا کہ پھر عشق میں کچھ نام کریں
پھر کسی شمع کی صورت کا سہارا لے کر
کیا پتہ تھا کبھی معصوم سی پلکوں پہ مری
آئے گا درد ان اشکوں کا جنازہ لے کر
ہم نے روشن جو کیا تھا پڑے ارمانوں سے
کیا پتہ تھا کہ وہی شمع لپک سکتی ہے
ڈھونڈ کر لائے جسے ہم کئی مے خانوں سے
کیا خبر مے اسی مینا سے ٹپک سکتی ہے
جلوۂ طور شمع کر کے پرائی سی شمع
ہم تو پروانہ کلیمی کی طرح جلتے گئے
پہلوئے عشق میں گھونپا جو گیا تیغِ ستم
اشکِ بے تاب میں غم ہائے نہاں ڈھلتے گئے
آشیاں میں نے بنایا کبھی جس ڈالی پر
وہی صیاد کو اپنا ہی پتہ دینے لگی
میں نے جن نظروں کو سمجھا تھا کہ جنت ہے مری
وہی اب جرمِ محبت کی سزا دینے لگی
جن حسیں لب پہ ابھی غیروں کا نام آتا ہے
انھیں لب پہ کبھی اپنا بھی تو نام آیا تھا
جن نگہ میں ابھی بھڑکا ہے غضب کا شعلہ
انھیں نظروں سے محبت کا سلام آیا تھا
ہم نے سمجھا تھا کہ بجھ جائے گی یادوں کی شمع
روح میں جل اٹھے بجھتی ہوئی یادوں کے دیے
خاک چھانی تھی کبھی تیری حسیں راہوں میں
کتنا سرگرداں ہوا تھا تجھے پانے کے لیے
آج ملتا ہے مجھے تیری نگہ کا یہ جواب
آج وہ بات نہیں پھر بھی کوئی بات تو ہے
ہم نگہ سے نہیں غزلوں سے تو مل سکتے ہیں
میرے حصّے میں یہ ہلکی سی ملاقات تو ہے
ہم نے خوابوں کے کئی قلعے کیے تھے تعمیر
ایک ہی شوخی میں ڈھا کر انھیں برباد کیا
آپ کا کچھ نہیں اپنا تو نصیبہ تھا یہی
ہم نے اپنے ہی نصیبے سے تو فریاد کیا
وہی فریاد کہ جو عرش ہلا سکتی ہے
میری بے تاب امنگوں کا پٹارہ لے کر
حیف کہ آج میں خود ہی سے یوں شرمندہ ہوں
منزلِ عشق سے چلتا ہوں کنارہ لے کر

0
33