مغرب کا تماشا سبھی دنیا نے تو دیکھا
بیچاری ہوا کرتی تھی اخلاقی خداوند
تم لوگوں کو بہتر رہی یورپ کی غلامی
احکامِ خدا کا ابھی مومن نہیں پابند
تہذیبِ فرنگی بڑی اچھی لگی تجھ کو
یہ زہرِ ہلاہل ہے تو سمجھا ہے اسے قند
تو ہی مجھے بتلا کہ یہ اسلام کا قانون
فطرت سے حنا بند کہ فطرت ہے حنا بند
کعبہ میں کیا شیخ نے کل وعظ اے مسلم
لازم نہیں تم لوگ ہو ایماں پہ عمل بند
الحاد تو پر زور ہے اسلام ہے کمزور
اچھا ہے کہ کر لیں ابھی یورپ کو رضامند
آغا ہیں یہ سب ان کا کہا مان کے دیکھو
واں کے سبھی بت لگتے ہیں اللہ کی مانند
تو کافرِ ہندی نے کہا شیخِ حرم سے
احمد تھا ترا باپ یا بولہب کا فرزند
اللہ کے سجدوں سے تو اکتا گیا ظالم
بت خانوں کے سجدوں سے ہے دل تیرا شکر خند
اب خدمتِ قومی کو تو سمجھا ہے قیودات
اور ہو گیا مغرب کے ہی غاروں میں نظر بند
ایمان کی خلعت ذرا بھاتی نہیں تجھ کو
تو چاہتا ہے کفر کی لگتی رہے پیوند
تو نے ہی تو پھیلائی ہے الحاد کی تعلیم
کافر ہوئی دنیا ز بخارا تا سمرقند
جب تک کہ تو الحاد کو کرتا نہیں سجدہ
ہوں گے نہیں راضی کبھی مغرب کے خداوند
احکامِ خدا حق ہیں مگر تیرے مفسر
قرآں کو بنا دیتے ہیں تاویل سے پاژند
منظورِ نظر تیرا ہے ہر کفر کا خوگر
ہیں خوار نگہہ میں سبھی مردانِ ہنرمند
خاشاک کے تودے کو میں کہہ دوں ہے یہ امید
کہ حق نے بنایا ہے اسے کوہِ دمانند
ہوں آتشِ نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش
میں بندۂ مومن ہوں نہیں دانۂ اسپند
جب شیخ نے دیکھا کہ ہے ثانی شرر انگیز
تو کافرِ ہندی کا نہیں کر سکا منہ بند

0
47