سب ہی گیا مٹا کے وہ سلسلے تو کیا |
تھے اور بھی جدایی کے فیصلے تو کیا |
اب نور اور ظلمت میں فرق ہی نہیں |
کویی دیا مکاں میں جلتا رہے تو کیا |
ہم دونوں ہی محبت سے خالی رہ گیے |
ہم نے جو لاکھ باندھے تھے حوصلے تو کیا |
مانا کہ بے وفایی تم سے بھی ہویی پر |
کردار کے بھی کچھ ہم تھے دوگلے تو کیا |
چلتے ہیں کویی منزل تک تو پہنچ جاؤں |
گر ہیں بلا سے کویی اور قافلے تو کیا |
کرلیں گے پھر ُملک میں ہجرت کبھی ترے |
جادہ میں آۓ طوفاں اور زلزلے تو کیا |
رو لیتا ہوں میں کچھ پل محفل سے آکے گھر |
یاروں نے خوب مارے تھے قہقہے تو کیا |
سانسیں عبیدؔ جاری ہیں کافی ہے یہی |
ہم اس جہاں میں اور پھلتے پھولتے تو کیا |
معلومات