محبت مری دللگی بن گئ ہے
خودی جو ملی بے خودی بن گئ ہے
تری بے رخی کچھ غمی بن گئ ہے
تو نے ہنس کے دیکھا خوشی بن گئ ہے
تری زلف سے اک جو گیسو گرا تھا
گلابوں کی وہ اک کلی بن گئ ہے
زمانہ مجھے اب تو بھاتا نہیں ہے
زمانے سے کیا دشمنی بن گئ ہے
تجھے ہم بھلائیں بھی کیسے مری جاں
تری یاد تو زندگی بن گئ ہے
ترے غم میں اکثر تو آہیں نہ نکلیں
جو نکلی کبھی شاعری بن گئ ہے
لگی تیری آنکھیں شرابوں سی ہم کو
شرابوں کی پھر کیوں کمی بن گئ ہے
کہے مجھ کو فیصلؔ وہ اپنا کبھی تو
مری اب یہ حسرت نئ بن گئ ہے

0
48