میں جو رفتہ رفتہ زندگی سے پرے جا رہا ہوں
تو میں برق برق انا میں اپنی ِگرے جا رہا ہوں
چڑھا کر آنکھ پر پردے لگا کر قفل ایماں کو
میں اک بے حسی کے دریا میں اترے جا رہا ہوں
میں دیکھوں ظلم کے منبر پہ ظالم کی ڈھٹائی کو
سیےؔ ہونٹوں کو اپنے بے ضمیر ہوےجا رہا ہوں
لگی ہے آگ بستی میں جلے ہیں لوگ کتنے ہی
میں چادر اوڑھے غفلت کی سوےجا رہا ہوں
ملا کر خاک میں دیکھو اُس عالیشان کی باتیں
کہ کیسا خوب خود کو ہی مٹاے جا رہا ہوں
جو دیکھا عکس کو اپنے حقیقی آینے میں اخترّ
تو جانا شرفِ انسانیت سے بہت دور جا رہا ہوں
معلومات