کبھی رت پرانی کو یاد کر کبھی مشکلوں کا حساب کر

مری حسرتوں کو تو داد دے کبھی حسنِ لیلی کو خواب کر


کبھی منتشر کبھی  روبرو، کبھی نفرتیں کبھی آرزو

کبھی جستجو رہے کوبہ کو، کبھی دوبدو تو جناب کر


یہ خیال دل میں اتر گیا کہ زمانہ جو تھا گزر گیا 

کبھی سوچوں میں وہ   دوام  دے کبھی دید پھر سے عذاب کر


کبھی عشق  لا مرے روبرو ،کبھی میں کروں زرا گفتگو 

کبھی حسن کو بیقرار کر کبھی حسنِ تاب  بے تاب کر


کبھی وصل کی رہیں  فرقتیں، کبھی دوریاں کبھی قربتیں 

کبھی آرزو میں تڑپ ملے کبھی چاہتوں کا حجاب کر


کبھی یاد کر کبھی رخ دکھا، کبھی ساقی بن  کبھی مے پلا 

کبھی شام شامِ غزل کریں کبھی غرق موجِ شراب کر


عتیق الرحمن پرستشؔ


0
254