"میں نے اپنے باطن کی روشنی سے خود کو پہچانا ہے، اور اسی روشنی میں عورت کی نئی تعریف تراشی ہے۔" — ڈاکٹر شاکرہ نندنی

وہ جو آئینہ ہے، مگر اس کی چمک کسی ظاہری روشنی کی محتاج نہیں۔ وہ جو خود کو جانتی ہے، مگر پہچان کسی اور کی مرہون نہیں۔ ایک ایسی ہستی، جو بدن کی سرحدوں سے بہت آگے، احساس اور ادراک کے نرم، مگر گہرے دریاؤں میں بہتی ہے۔ میرِ وجود وہ نسوانی کیفیت ہے جہاں عورت صرف جسم، حسن یا آنکھوں کا فسوں نہیں بلکہ ایک مکمل کائنات کی نبض ہے — وہ نبض جو ہر دور کے سوال کا جواب، اور ہر خاموشی کا راز ہے۔


یہ تحریر اس عورت کی ہے جو اپنے وجود کو ترنگ، زلف یا ناز کی قیمت پر تولنے سے انکار کرتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ حسن کا تاثر عارضی ہے، اور جسم کا جادو محدود۔ مگر جو قوت اس کے اندر کی خلوت میں پل رہی ہے، وہ کسی بھی انقلاب کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اس کی دعائیں محض التجائیں نہیں، وہ ایسی لہریں ہیں جو وقت کی پرتیں چیر کر تبدیلی کے بیج بو سکتی ہیں۔ وہ عورت جو جسم کی قید سے نکل کر جذب کے جہان میں سانس لیتی ہے، اس کا عشق بھی خالص ہوتا ہے — ایسا عشق جو چاہت سے زیادہ ادراک ہے، قربت سے زیادہ آزادی۔


وہ کہتی ہے کہ میں خاموش ہوں، مگر میری خاموشی میں صدیوں کا شور چھپا ہے۔ میری آنکھ میں وصل ہے، مگر یہ وصل کسی بدن کی تمنا نہیں، بلکہ اُس روشنی کا پرتو ہے جو فہم کی گہرائیوں سے جنم لیتی ہے۔ وہ روشنی جو جذبوں کو اک نیا رنگ دیتی ہے — نہ روایتی، نہ مقدس، بلکہ کچا، خام، جیتا جاگتا لمس۔


یہ عورت شاکرہ ہے — وہ جو اپنے سچ سے آگاہ ہے۔ یہ نندنی ہے — وہ جو زمین کی کوکھ میں روشنی کی بیل اگاتی ہے۔ اور یہ تاج ہے — نہ صرف سر پر پہننے والا زیور، بلکہ شعور کا وقار۔ وہ کہتی ہے: "میں خود سے عشق میں زندہ ہوں، نہ محتاجِ وصال"۔ یہ ایک ناقابلِ انکار اعلان ہے کہ اب عورت کسی کے لمس یا تعریف کی طلب گار نہیں، بلکہ وہ خود اپنے لمس سے جی رہی ہے، خود اپنے حسن کی قاصد ہے۔


یہ تحریر کوئی صوفی وعظ نہیں، نہ کوئی مذہبی تلقین۔ یہ ایک نسوانی صداقت ہے — تھوڑی لطیف، تھوڑی تلخ، کہیں کہیں پُرکشش اور سراپا جاذب۔ یہ اُس عورت کا سچ ہے جو حیا کو اختیار کے ساتھ پہنتی ہے، اور اپنی خواہش کو شرم کے پردے میں نہیں چھپاتی۔ وہ نہ شرماتی ہے، نہ لڑتی ہے — بس خود کو جانتی ہے، اور یہی علم اس کا سب سے قیمتی زیور ہے۔


شاکرہ  تُونے جو روشنی، دل میں جلائی ہے

وہی چراغ اب اِک نئی صبح کی گواہی ہے


میرِ وجود ایک آواز ہے — بدن کے اندر دھڑکتے ایک ایسے دل کی جو نہ صرف دھڑکنا جانتا ہے بلکہ سننا بھی جانتا ہے، محسوس کرنا بھی، اور کسی نئے عہد کی دُھن بن جانا بھی۔ یہ تحریر عورت کو نہ کسی تقدس کے پنجرے میں بند کرتی ہے، نہ کسی ہوس کے ہنگامے میں گم۔ یہ ایک نیا حوالہ ہے — عورت بطور ایک مکمل، آزاد، فہمیدہ اور پُرکشش وجود کے۔


15