خزاں کی رتوں میں وہ تو بن کے بہارآئےدکھا کے جھلک اپنی گلوں کو سنوار آئےتھے جبرِ ایام کیسے جنہیں ہم گزار آئےعجب بوجھ تھے شانوں پہ جنکو اتار آئےچاہت کی بےچینی کو مٹانا ہوا مشکلاسی واسطے جاناں طالبِ دیدار آئےسحر تیری ہنسی کا قابض ہوا یوں دل پرجینے کے لیے دل تھااسے کر نثار آئےنہیں ہوئی تھی ہم کو میسر تری جھلکترے کوچے سے دلبر بڑے سوگوار آئےماضی کی تلخ یادیں کہاں جینے دیتی ہیںجسے بھولنا چاہیں وہ یاد بے شمار آئےکیسے وقت نے بدلی بازی ایک ہی پل میںشکار بن گئے تھے وہ جو کرنے شکار آئےکبھی وہ بولیں آکے مرے روبرو انعمتمہیں دیکھنے کی چاہ میں بڑے بےقراراآئے