یہ گنبدِ مینائی یہ عالمِ ِتنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
بھٹکا ہوا راہی میں بھٹکا ہوا راہی تو
منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلۂ سینائی میں شعلۂ سینائی
تو شاخ سے کیوں پھوٹا میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبہِ پیدائی اک لذتِ یکتائی
غواص محبت کا اللہ نگہباں ہو
ہر قطرئہ دریا میں دریا کی ہے گہرائی
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
ہے گرمیِ آدم سے ہنگامۂ عالم گرم
سورج بھی تماشائی تارے بھی تماشائی
اے باد بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی سرمستی و رعنائی
بحر
ہزج مثمن اخرب سالم
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن

1868

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں