سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ |
میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں |
روح کو اس کی اسیرِ غمِ الفت نہ کروں |
اُس کو رسوا نہ کروں، وقفِ مصیبت نہ کروں |
سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ |
واقفِ درد نہیں، خوگرِ آلام نہیں |
سحرِ عیش میں اُس کی اثرِ شام نہیں |
زندگی اُس کے لیے زہر بھرا جام نہیں |
سوچتا ہوں کہ محبت ہے جوانی کی خزاں |
اُس نے دیکھا نہیں دنیا میں بہاروں کے سوا |
نکہت و نور سے لبریز نظاروں کے سوا |
سبزہ زاروں کے سوا اور ستاروں کے سوا |
سوچتا ہوں کہ غمِ دل نہ سناؤں اُس کو |
سامنے اس کے کبھی راز کو عریاں نہ کروں |
خلشِ دل سے اسے دست و گریباں نہ کروں |
اس کے جذبات کو میں شعلہ بداماں نہ کروں |
سوچتا ہوں کہ جلا دے گی محبت اس کو |
وہ محبت کی بھلا تاب کہاں لائے گی |
خود تو وہ آتشِ جذبات میں جل جائے گی |
اور دنیا کو اس انجام پہ تڑپائے گی |
سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ |
سوچتا ہوں میں اُسے واقفِ الفت نہ کروں |
بحر
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات