غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں |
بوسے کو پُوچھتا ہوں مَیں، منہ سے مجھے بتا کہ یُوں |
پُرسشِ طرزِ دلبری کیجئے کیا؟ کہ بن کہے |
اُس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یُوں |
رات کے وقت مَے پیے ساتھ رقیب کو لیے |
آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یُوں |
'غیر سے رات کیا بنی' یہ جو کہا تو دیکھیے |
سامنے آن بیٹھنا، اور یہ دیکھنا کہ یُوں |
بزم میں اُس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے |
اُس کی تو خامُشی میں بھی ہے یہی مدّعا کہ یُوں |
میں نے کہا کہ" بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی" |
سُن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یُوں ؟ |
مجھ سے کہا جو یار نے 'جاتے ہیں ہوش کس طرح' |
دیکھ کے میری بیخودی، چلنے لگی ہوا کہ یُوں |
کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی |
آئینہ دار بن گئی حیرتِ نقشِ پا کہ یُوں |
گر ترے دل میں ہو خیال، وصل میں شوق کا زوال |
موجِ محیطِ آب میں مارے ہے دست و پا کہ یُوں |
جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کہ ہو رشکِ فارسی |
گفتۂ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ یُوں |
بحر
رجز مثمن مطوی مخبون
مفتَعِلن مفاعِلن مفتَعِلن مفاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات