| ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے |
| تمھیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے |
| نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا |
| کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے |
| یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے |
| وگرنہ خوفِ بد آموزیٔ عدو کیا ہے |
| چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن |
| ہمارے جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے |
| جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا |
| کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے |
| رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل |
| جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے |
| وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز |
| سوائے بادۂ گل فامِ مشک بو کیا ہے |
| پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار |
| یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے |
| رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی |
| تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے |
| ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا |
| وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے |
بحر
|
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات