شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے |
یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گلا ہوتا ہے |
پر ہوں میں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا |
اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے |
گو سمجھتا نہیں پر حسن تلافی دیکھو |
شکوۂ جور سے سر گرمِ جفا ہوتا ہے |
عشق کی راہ میں ہے چرخِ مکوکب کی وہ چال |
سست رو جیسے کوئی آبلہ پا ہوتا ہے |
کیوں نہ ٹھہریں ہدفِ ناوکِ بیداد کہ ہم |
آپ اٹھا لاتے ہیں گر تیر خطا ہوتا ہے |
خوب تھا پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بد خواہ |
کہ بھلا چاہتے ہیں اور برا ہوتا ہے |
نالہ جاتا تھا پرے عرش سے میرا اور اب |
لب تک آتا ہے جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے |
خامہ میرا کہ وہ ہے باربدِ بزمِ سخن |
شاہ کی مدح میں یوں نغمہ سرا ہوتا ہے |
اے شہنشاہِ کواکب سپہ و مہر علم |
تیرے اکرام کا حق کس سے ادا ہوتا ہے |
سات اقلیم کا حاصل جو فراہم کیجے |
تو وہ لشکر کا ترے نعل بہا ہوتا ہے |
ہر مہینے میں جو یہ بدر سے ہوتا ہے ہلال |
آستاں پر ترے مہ ناصیہ سا ہوتا ہے |
میں جو گستاخ ہوں آئینِ غزل خوانی میں |
یہ بھی تیرا ہی کرم ذوق فزا ہوتا ہے |
رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف |
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے |
بحر
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات