نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے |
کیا بنے بات ، جہاں بات بنائے نہ بنے |
میں بلاتا تو ہوں اس کو ، مگر اے جذبۂ دل |
اس پہ بن جائے کُچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے |
کھیل سمجھا ہے ، کہیں چھوڑ نہ دے ، بھول نہ جائے |
کاش! یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے |
غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ ، اگر |
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے ، تو چھپائے نہ بنے |
اس نزاکت کا برا ہو ، وہ بھلے ہیں ، تو کیا |
ہاتھ آویں ، تو انھیں ہاتھ لگائے نہ بنے |
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے |
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے |
موت کی راہ نہ دیکھوں؟ کہ بن آئے نہ رہے |
تم کو چاہوں؟ کہ نہ آؤ ، تو بلائے نہ بنے |
بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اُٹھے |
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے |
عشق پر زور نہیں ، ہے یہ وہ آتش غالبؔ! |
کہ لگائے نہ لگے ، اور بجھائے نہ بنے |
بحر
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات