وہ دل کا برا نہ بے وفا تھا |
بس مجھ سے یونہی بچھڑ گیا تھا |
لفظوں کی حدوں سے ماوراء تھا |
اب کس سے کہوں وہ شخص کیا تھا |
وہ میری غزل کا آئینہ تھا |
ہر شخص یہ بات جانتا تھا |
ہر سمت اُسی کا تذکرہ تھا |
ہر دل میں وہ جیسے بس رہا تھا |
میں اُس کی انا کا آسرا تھا |
وہ مجھ سے کبھی نہ روٹھتا تھا |
میں دھوپ کے بن میں جل رہا تھا |
وہ سایۂ ابر بن گیا تھا |
میں بانجھ رتوں کا آشنا تھا |
وہ موسمِ گُل کا ذائقہ تھا |
اک بار بچھڑ کے جب ملا تھا |
وہ مجھ سے لپٹ کے رو پڑا تھا |
کیا کچھ نہ اُسے کہا گیا تھا |
اُس نے تو لبوں کو سی لیا تھا |
وہ چاند کا ہمسفر تھا شائد |
راتوں کو تمام جاگتا تھا |
ہونٹوں میں گُلوں کی نرم خوشبو |
باتوں میں تو شہد گھولتا تھا |
کہنے کو جدا تھا مجھ سے لیکن |
وہ میری رگوں میں گونجتا تھا |
اُس نے جو کہا کیا وہ دل نے |
انکار کا کس میں حوصلہ تھا |
یوں دل میں تھی یاد اُس کی جیسے |
مسجد میں چراغ جل رہا تھا |
مت پوچھ حجاب کے قرینے |
وہ مجھ سے بھی کم ہی کُھل سکا تھا |
اُس دن مرا دل بھی تھا پریشاں |
وہ بھی میرے دل سے کچھ خفا تھا |
میں بھی تھا ڈرا ہوا سا لیکن |
رنگ اُس کا بھی کچھ اُڑا اُڑا تھا |
اک خوف سا ہجر کی رتوں کا |
دونوں پہ محیط ہو چلا تھا |
اک راہ سے میں بھی تھا گریزاں |
اک موڑ پہ وہ بھی رک گیا تھا |
اک پل میں جھپک گئیں جو آنکھیں |
منظر ہی نظر میں دوسرا تھا |
سوچا تو ٹھہر گئے زمانے |
دیکھا تو وہ دور جا چکا تھا |
قدموں سے زمیں سرک گئی تھی |
سورج کا بھی رنگ سانولا تھا |
چلتے ہوئے لوگ رُک گئے تھے |
ٹھہرا ہوا شہر گھومتا تھا |
سہمے ہوئے پیڑ کانپتے تھے |
پتّوں میں ہراس رینگتا تھا |
رکھتا تھا میں جس میں خواب اپنے |
وہ کانچ کا گھر چٹخ گیا تھا |
ہم دونوں کا دکھ تھا ایک جیسا |
احساس مگر جدا جدا تھا |
کل شب وہ ملا تھا دوستوں |
کہتے ہیں اداس لگ رہا تھا |
محسن یہ غزل یہ کہہ رہی ہے |
شائد ترا دل دُکھا ہوا تھا |
بحر
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
مفعول مفاعِلن فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات