کہوں جو حال تو کہتے ہو "مدعا کہیے " |
تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیے؟ |
نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ "ہم ستمگر ہیں " |
مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو "بجا" کہیے |
وہ نیشتر سہی پر دل میں جب اتر جاوے |
نگاہِ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے |
نہیں ذریعۂ راحت جراحتِ پیکاں |
وہ زخمِ تیغ ہے جس کو کہ دل کشا کہیے |
جو مدعی بنے اس کے نہ مدعی بنیے |
جو نا سزا کہے اس کو نہ نا سزا کہیے |
کہیں حقیقتِ جاں کاہیٔ مرض لکھیے |
کہیں مصیبتِ نا سازیٔ دوا کہیے |
کبھی شکایتِ رنجِ گراں نشیں کیجے |
کبھی حکایتِ صبرِ گریز پا کہیے |
رہے نہ جان تو قاتل کو خوں بہا دیجے |
کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے |
نہیں نگار کو الفت، نہ ہو، نگار تو ہے! |
روانیٔ روش و مستیٔ ادا کہیے |
نہیں بہار کو فرصت، نہ ہو بہار تو ہے! |
طراوتِ چمن و خوبیٔ ہوا کہیے |
سفینہ جب کہ کنارے پہ آ لگا غالبؔ |
خدا سے کیا ستم و جورِ ناخدا کہیے! |
بحر
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
||
مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات