تم سے ملنا کبھی اتنا بھی تو دشوار نہ تھا
جیسا اب ہوں کبھی اتنا بھی تو بیمار نہ تھا
میرے ایام گزرتے ہیں اذیت میں ہی کیوں
زندگی سے کبھی ایسے بھی تو دوچار نہ تھا
کیسے فرقت کے شب و روز جو گم ہو گئے سب
اس جدائی کے لئے میں بھی تو تیار نہ تھا
اب تو خود کا بھی مجھے لگ رہا ہے بوجھ بہت
میری دنیا سے میں اتنا بھی تو بیزار نہ تھا
منزلیں تم نے بتائی ہیں جنوں کی مجھ کو
مجھ کو مستی سے کبھی بھی تو سروکار نہ تھا
چشمِ نم ہی تو مقدر ہے ہمایوں کا جبھی
اس کے دکھ کا کوئی ویسے ہی تو پرچار نہ تھا
ہمایوں

0
41