ہم میں جھگڑے کی وجہ کچھ بھی نہیں
قربتوں نے بھی دیا کچھ بھی نہیں
تجھ سے جو دور تھا ایسا ہی تھا میں
تجھ سے مل کر بھی ملا کچھ بھی نہیں
اب تو یہ رسم ہے گفتار کی بس
تیرے میرے میں رہا کچھ بھی نہیں
یہ محبت بھی تردد ہی ہے اب
اور جذبے کی عطا کچھ بھی نہیں
ہو ملاقات بھی اب کس کے لئے
وصل تیرے میں رہا کچھ بھی نہیں
اب وفا و جفا کی بات ختم
جرم کیسا ہے سزا کچھ بھی نہیں
اس کا مقصد تو محبت نہیں تھا
کیا ہمایوں یہ خطا کچھ بھی نہیں
ہمایوں

0
41