سنبھلتے کرتے سنبھل گیا میں
تری محبت میں ڈھل گیا میں
جلائے مجھ کو نہ آگ اب تو
کہ اتنی دفعہ جو جل گیا میں
کہ تجھ میں بسنا ہے لازم اب تو
کہ خود سے اب کے نکل گیا میں
وجود میرا رہا کہاں ہے
کہ جل ہی جل کے پگھل گیا میں
یوں راستے پرمیں آ گیا ہوں
بھٹک گیا میں پھسل گیا میں
جدائیاں بھی ختم ہوئیں اب
کہ تیری یادوں سے مل گیا میں
ہے تیری یادوں کی آبیاری
خزاں کی رت میں بھی کھِل گیا میں
ہے ظلمِ پیہم خیالِ فرقت
وجود اپنے میں ہِل گیا میں
یہ راز تیرے جو تھے ہمایوں
تری محبت میں کھُل گیا میں
ہمایوں

0
43