مقتل سے آ رہی ہے اذاں کی  صدا مجھے
پھر سے بلا رہا ہے کوئی کربلا مجھے
جی چاہتا ہے شعر کہوں یا غزل لکھوں
کچھ روز سے  نجانے  ہے کیا  ہو گیا مجھے
تیرا وہ ملنا سردیوں کی گہری شام میں
آتا ہے یاد  دھند میں لپٹا ہوا  مجھے
کتنے ہیں باقی اور ستم اے ستم شعار
ہر روز سامنا ہے نئے درد  کا ممجھے
تیرا سلام کہتی ہے بادِ صبا مجھے
دل کو لبھاتی ہے تری ہر اک ادا مجھے
تم ہرکسی سے بات جو کرتے ہو پیار سے
اس بات کا بھی رنج ہے بے انتہا مجھے

0
62