کوئی بنیاد رکھتے ہیں کسی بھی پھر فسانے کی
چلو کر لیں کوئی تدبیر ہم خود کو جلانے کی
کہ میرے پرسکوں پانی میں آ جائے تلاطم پھر
کہ لہروں میں ہو پیدا پھر سے خواہش سر اٹھانے کی
کریں تعمیر ہم مل کر محل کوئی خیالوں کا
کریں تدبیر اسکو وعدوں قسموں سے سجانے کی
کہ پھر وہ توڑ دے وعدہ وہ قسموں سے مکر جائے
کہ میرا ہمسفر تکلیف مجھکو دے زمانے کی
کہیں سے پھر کوئی بھٹکا ہوا سا تیر آ جائے
سزا ہم کو ملے پھر سے محبت کو نبھانے کی
کہ پھر سے دل کے آنگن میں کوئی ہلچل سی مچ جائے
ضرورت پھر سے پڑ جائے جو سازِ غم بجانے کی
وفاؤں کو کچلنے کا وطیرہ پھر سے دیکھیں ہم
کہ پھر سے واقعہ ہو جائے خود کو آزمانے کا
حوادث کے حوالے پھر میں خود کو کر کے دیکھوں گا
ستم کرنے کی ہے کتنی سکت ظالم زمانے کی
بنا لو رابطہ مجھ سے محبت کے علاوہ بھی
وجہ کچھ بھی تو بن جائے گی مجھ کو یوں ستانے کی
بدل لے سوچ اپنی تو ہمایوں ورنہ ہے مشکل
تجھے یوں کیا پڑی ہے دکھ زمانے کے کمانے کی
ہمایوں

0
5