تُو مجھے چھوڑ گیا اپنی انا کی خاطر
رابطہ توڑ گیا مجھ سے جفا کی خاطر
کیسے رنگین رہا تجھ سے تعلق میرا
خونِ دل ہم نے دیا رنگِ حنا کی خاطر
وہ جو لاتی تھی تری خوشبو مرے آنگن میں
ہم نے وہ یاد رکھا بادِ صبا کی خاطر
ہم تو چلتے ہی رہے دیکھے بنا منزل کو
ہم نے کب پیار کیا تجھ سے جزا کی خاطر
اپنی دھڑکن کو کیا تیرے حوالے میں نے
کتنا میں اور مروں تیری بقا کی خاطر
تجھ کو آئے نہ نظر شوق کی شدت میری
ہم نے کیا کیا نہ کیا تجھ سے وفا کی خاطر
اے ہمایوں ترا انجام یہ ہی ہونا تھا
عشق ہوتا ہے مری جان فنا کی خاطر
ہمایوں

43