کشتیاں ساری ہی اس پار کہیں چھوڑ آئے
تیرے ادوار سے نکلوں تو کوئی دور آئے
تیرا چہرہ ہی نظر آئے ہے ہر سو مجھ کو
تو مری سوچ سے نکلے تو کوئی اور آئے
زندگی میں تو کبھی سوچ نہیں سکتا میں
مری سوچوں میں ترے بعد کوئی موڑ آئے
وصل تیرا ہی مقدم جو رہا ہے مجھ کو
بس میسر تری فرقت ہمیں ہر طور آئے
تذکرہ جب بھی رہا ہو گا وفا کا تب ہی
اک کہانی کہیں ہم بھی تو وہاں چھوڑ آئے
اے ہمایوں یہ ترا دید کا ہے پاگل پن
تیری دیوانگی کا ہر سو تو اب شور آئے
ہمایوں

0
41