تشہیرِ تعلق نے دیا کچھ بھی نہیں ہے
اک درد سا ہے اور ملا کچھ بھی نہیں ہے
اس سوچ میں رہتا تھا تلاطم جو ہمیشہ
وہ سوچ بیاباں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
چلتا رہا ہوں اک ترے جو خواب کے پیچھے
وہ خواب ہی تھا اور صلہ کچھ بھی نہیں ہے
اکسیر مری زیست کا میں ڈھونڈتا کیوں تھا
معلوم تھا یہ مجھ کو جزا کچھ بھی نہیں ہے
سب کچھ لٹا چکا ہوں ترے واسطے یوں اب
بس مجھ میں ترے بعد رہا کچھ بھی نہیں ہے
چاہت تری تو جھوٹ پہ مبنی تھی ہمیشہ
چاہت نے ہمایوں کی دیا کچھ بھی نہیں ہے
ہمایوں

0
42