جب سے ہم رومان پرور ہو گئے
تیرے در کے ہم گداگر ہو گئے
اے درخشاں تو ہے مثلِ عنبری
چھونے سے تیرے معطر ہو گئے
اک نظر کیا تیری ہم پر پڑ گئی
ہم بھی صحرا سے سمندر ہو گئے
آپ تو منہ مانگے داموں میں بکے
ہم مگر سستے میسر ہو گئے
نرم دل پہلے تھے سب احباب اب
جانے کیا گزری کہ پتھر ہو گئے
زندگی نے ہم کو تنہا کردیا
دل سے بھی ہم تیرے بے گھر ہو گئے
اس نے بھی جی بھر کے لوٹا ہیں ہمیں
ہم یہاں جس کو میسر ہو گئے
مدتوں احسنؔ رہے گی یہ خلش
کیوں مرے سب دوست پتھر ہو گئے

14