تیغِ ستم سے اس کے ہے یہ دل کٹا ہوا
اب عشق میں بھی زخم لگانا روا ہوا
احسن ہمارے ساتھ عجب سانحہ ہوا
ہر اک ہمارے ساتھ کا اچھا برا ہوا
یاروں کی آستیں میں ہے خنجر چھپا ہوا
تڑپا کے کہہ رہے ہیں وہ احسن کو کیا ہوا
دنیا سے کوچ کرنا ہے اک روز مومنو
ہر سانس پر ہے موت کا پہرا لگا ہوا
کرتا نہیں ہوں بات میں کیف و سرور کی
سوز و الم کا دل میں ہے محشر سجا ہوا
شامل خزاں کی باؤ ہے میری بہار میں
خوشیوں کے ساتھ میرے ہے غم بھی لگا ہوا
جھانکا جو دل میں اپنے میں جب بھی اے دوستو
ہر بار بس اُسی سے مرا سامنا ہوا
تیری نگاہِ ناز کا سارا قصور ہے
کوئی مٹا ہوا ہے تو کوئی جھکا ہوا
پیتا نہیں ہوں پھر بھی ہے میرے حواس گم
اک روگ زندگی کو ہے یہ بھی لگا ہوا
شوقِ وصال یار نہ خواہش بہار کی
ہے آج کل چراغِ تمنا بجھا ہوا
کیا بات تھی جو بزم میں تنہا کھڑا تھا وہ
احسنؔ یہ آج بھی ہے معمہ بنا ہوا

19