میں بھی نکلا تھا کہیں عشق کمانے کے لئے
دل کے آنگن میں کوئی دیپ جلانے کے لئے
ہو گئے اب وہ پرانے جو ملے زخم مجھے
پھر سے تیار ہوں میں دوست بنانے کے لئے
کر دو افکار کی ترتیب سے بیگانہ مجھے
دل میں اک سوز کہیں پھر سے جگانے کے لیے
دل میں طاقت ہے کہاں سوچ یہ آتی ہے مجھے
اک نیا بوجھ ترے غم کا اٹھانے کے لئے
اس ہمایوں کے ستاروں کی ہے گردش بھی عجب
غم ہی ڈھونڈوں میں ترے غم کو بھلانے کے لئے
ہمایوں

0
64