منزل پہ پہلے موت کا سامان کر دیا
پھر اس نے میرا راستہ آسان کر دیا
یہ بھی ہے ایک سانحہ کل اک عزیز نے
اپنے مفاد پر مجھے قربان کر دیا
میرے سخن میں گریہ و ہجر و زوال ہے
تم نے تو مجھ کو میرؔ کا دیوان کر دیا
ہوش و حواس و عقل و خِرَد کو شکست دی
تیری نگاہِ ناز نے بے جان کر دیا
اے یار کہہ بھی دو کہ بہت سوچتے ہو تم
ہم نے تو اپنے عشق کا اعلان کر دیا
ہم نے تو اپنے زخم تھے لکھ کر رکھے فقط
یاروں نے اس کا دیکھیے دیوان کر دیا
یہ ہے مآلِ صحبتِ زاہد جنابِ دل
حیواں سے اک نگاہ نے انسان کر دیا
سوز و الم پہ آپ کو درکار تھی غزل
وہ کام ہم نے آپ کا حسانؔ کر دیا

0
17