اک تلخ حقیقت تھی بھلاتا بھی نہیں ہوں |
پھر دیپ محبت کا جلاتا بھی نہیں ہوں |
آغوش تری مجھ کو ستائے ہے اگرچہ |
یادوں سے تری دور میں جاتا بھی نہیں ہوں |
وہ دور ترے وصل کا آتا بھی نہیں ہے |
اور ہجر کا میں ساز بجاتا بھی نہیں ہوں |
کیوں تجھ سے تکلم کو ترستی ہے سماعت |
کیوں بول محبت کے سناتا بھی نہیں ہوں |
پیچیدگی میں اب تو رہے گا جو ہمایوں |
اب راز تو یہ خود کو بتاتا بھی نہیں ہوں |
ہمایوں |
معلومات