اک تلخ حقیقت تھی بھلاتا بھی نہیں ہوں
پھر دیپ محبت کا جلاتا بھی نہیں ہوں
آغوش تری مجھ کو ستائے ہے اگرچہ
یادوں سے تری دور میں جاتا بھی نہیں ہوں
وہ دور ترے وصل کا آتا بھی نہیں ہے
اور ہجر کا میں ساز بجاتا بھی نہیں ہوں
کیوں تجھ سے تکلم کو ترستی ہے سماعت
کیوں بول محبت کے سناتا بھی نہیں ہوں
پیچیدگی میں اب تو رہے گا جو ہمایوں
اب راز تو یہ خود کو بتاتا بھی نہیں ہوں
ہمایوں

0
62