ایام ماہ و سال تو اب سب گزر گئے
تیرے وہ سب کمال تو اب سب گزر گئے
جو محورِ خیال تھیں تیری محبتیں
وہ قیمتی خیال تو اب سب گزر گئے
وہ جستجو تری مرے قرب و جوار کی
وہ پوچھنے سوال تو اب سب گزر گئے
اب کچھ گزر گئے ہیں تو کچھ سامنے نہیں
رشتوں کے خدوخال تو اب سب گزر گئے
وہ عہدِ رفتہ بھی تو اذیت لگے مجھے
ماضی رہا نہ حال تو اب سب گزر گئے
تیرے ہمایوں ہاتھ میں اب کچھ نہیں رہا
تو ہو گیا بے حال تو اب سب گزر گئے
ہمایوں بلبلہ

0
27