کبھی شاخِ سبزہ و برگ پر کبھی غُنچہ و گُل و ڈال پر
پھرے ہم جہاں میں گلی گلی فقط اک امیدِ وصال پر
یہی عہد تھا کوئی اپنا غم نہ بیاں کریں گے کسی سے ہم
جوں ہی چشمِ تر نے کئے ستم سبھی رو دئے مرے حال پر
گو کہ شاعرانہ خیال ہے مگر پھر بھی ایک مثال ہے
جو جہاں کا حُسن و جمال ہے اسے تج دوں ان کے جمال پر
یہ کیسا وقتِ عجیب ہے ترے ساتھ میرا رقیب ہے
غمِ یار جس کا نصیب ہے اسے چھوڑ دو اسی حال پر
نہ زباں سے کوئی سوال کر نہ خیالِ فردا و حال کر
فقط آرزوئے وصال کر کسی نامہ بر کے کمال پر
یہی داستانِ گذشت ہے جو بلند تھا وہی پست ہے
کوئی بُود تھا کوئی ہست ہے یہ عجب ستم ہے زوال پر
درِ آسماں سے نوید ہے کہیں آج بزمِ شہید ہے
اے امید یومِ سعید ہے یا شہید پر یا قتال پر

43