ایسے شاید کہاں کسی سے ملے
تم سے ملنے میں زندگی سے ملے
بے قدر ہو گئے حیات کے غم
اس قدر آپ خوش دلی سے ملے
کیا یہ کم ہے کہ جب ملے تم سے
تم سے مل کر نہ پھر کسی سے ملے
کاش ہوتے محیط صدیوں پر
پل جو قربت میں دل لگی سے ملے
بے خبر تم سے ہم رہیں کیسے
ہم کو اپنی خبر تمھی سے ملے
سوچ میں بھی نہیں کوئی ثانی
نا یہ صورت تری کسی سے ملے
التجا رب سے ہے کہ محشر میں
ساتھ جنت کی زندگی سے ملے

0
138