ظاہراً روشن سہی پر اندروں تاریک ہے
کیونکہ میرا جامہ میرے دشمنوں کی بھیک ہے
آتشِ نارِ جہنّم سے جلا دو مُلک کو
کس سیاستدان کی یہ خوں زدہ تحریک ہے
بیٹا ہوں آدم کا پر وہ بُوزنا کہتے ہیں کیوں
باخدا آدم کی یہ کتنی بڑی تضحیک ہے
یوں تو کَے دن زندگی ہے کوئی بھی واقف نہیں
جسم کی کمزوریوں سے لگ رہا نزدیک ہے
غیر کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر پھرتے ہو تم
کہتے ہیں سب اقربا لیکن مجھے تشکیک ہے
کیا مشیّت اور ہے کچھ اور رضا کچھ اور ہے
یا اگر کچھ فرق ہے تو تھوڑا ہے باریک ہے
لوگ کہتے ہیں مجھے امید کیوں بیزار ہو
آپ نے بھی کہہ دیا تو چلئے صاحب ٹھیک ہے

0
33