دعائیں بت کہاں سنتے صدائیں بت کہاں سنتے
ہیں پتھر سے بنے سارے یہ آہیں بت کہاں سنتے
فقط یہ خود کو بہلانے کو ہے یہ کام بس اچھا
وگرنہ علم ہے ہم کو ندائیں بت کہاں سنتے
فقط یہ ظلم ہے جو خود پہ ہے ہم نے روا رکھا
یہ ہے اک خود کلامی سی وفائیں بت کہاں سنتے
مرے اغیار نے ہے مجھ کو سمجھایا ازل سے ہے
جتن تُو لاکھ کر لے پر ادائیں بت کہاں سنتے
تری قربت میں ہم کو اک سکونِ دل تو ملتا تھا
مگر جو ہجر کا قصہ بتائیں بت کہاں سنتے
اذیت کو چھپا لیں ہم کہیں اس دل کے خانوں میں
ہمایوں کی یہ فریادیں سزائیں بت کہاں سنتے
ہمایوں

0
47