ہر سمت جو یہ جشن کا آغاز ہوا ہے
ہم تجھ سے ملے ہیں تو یہ اعجاز ہوا ہے
رخ سوچ کا میری جو تو نے پھیر دیا ہے
ایسا مری دنیا میں کبھی شاذ ہوا ہے
ہے پھر سے تلاطم کا وہی عزمِ تباہی
دل اپنے سکوں سے جو دغا باز ہوا ہے
دل خود ہی بتائے گا جو احوال تجھے تو
اب مجھ سے مری جاں جو تو ہمراز ہوا ہے
جس دل میں نہ جاگا ہو کوئی گیت وفا کا
پرسوز کبھی پھر تو نہ وہ ساز ہوا ہے
یہ بات ہمایوں کے نہ پلے پڑی ہے کیوں
یہ پیار ترا کیوں نظر انداز ہوا ہے
ہمایوں

0
21