اس کو ڈھونڈو کہیں وہ گیا ہے کہاں
اجنبی راستے اجنبی ہے جہاں
کوئی چہرہ بھی اس کا شناسا نہیں
جانتا بھی نہیں وہ یہاں کی زباں
کھو گیا ہے کہیں وہ اسی شہر میں
سب ہی رستے پرائے ہیں اس سے یہاں
اس کو اپنا پتہ بھی نہیں ہے پتا
ڈھونڈتا ہی رہے گا کوئی رازداں
یارو جنگل کا رستہ نہ لے لے کہیں
ہر طرف ہیں درندے وہاں الاماں
وہ تو آدابِ بستی بھی جانے نہیں
وہ تو رہتا ہے دھن میں ہی اپنی رواں
تو نے آنا نہیں تھا کبھی بھی یہاں
اے ہمایوں نہیں یہ ترا آستاں
ہمایوں

27