جب تلک سر جُدا نہیں ہوتا
عشق کا حق اَدا نہیں ہوتا
بیت جاتِیں ہیں عشق میں عمریں
کوئی اِس سے رِہا نہیں ہوتا
گو کہ عشق آدمی نِگلتا ہے
یہ مگر اَڏْدَہا نہیں ہوتا
یہ میاں ایک بار ہوتا ہے
عشق تو بارہا نہیں ہوتا
عشق کی رمز اُس پہ کُھلتی نہیں
دل جو درد آشنا نہیں ہوتا
اب تو ہم اُس مَقام پر ہیں جہاں
کچھ بھی راحت فَزا نہیں ہوتا
دردِ فرقت ہے, سانس آخری ہے
تجھ سے میرا بَھلا نہیں ہوتا؟
ہجر والوں کی رات میں, کچھ بھی
درد و غم کے سوا نہیں ہوتا
مجھے تصویر اپنی دے گئے ہو
ایسا تو آسرا نہیں ہوتا
خالقِ کُن! اُسے مِرا کر دے
تیرے کرنے سے کیا نہیں ہوتا
ہم سے اُمید مت لگاؤ کچھ
ہم سے کچھ بھی بَھلا نہیں ہوتا
سر جو اونچا کرے خدا شاہدؔ
کٹ کے بھی وہ جُھکا نہیں ہوتا

0
54