جب تلک سر جُدا نہیں ہوتا |
عشق کا حق اَدا نہیں ہوتا |
بیت جاتِیں ہیں عشق میں عمریں |
کوئی اِس سے رِہا نہیں ہوتا |
گو کہ عشق آدمی نِگلتا ہے |
یہ مگر اَڏْدَہا نہیں ہوتا |
یہ میاں ایک بار ہوتا ہے |
عشق تو بارہا نہیں ہوتا |
عشق کی رمز اُس پہ کُھلتی نہیں |
دل جو درد آشنا نہیں ہوتا |
اب تو ہم اُس مَقام پر ہیں جہاں |
کچھ بھی راحت فَزا نہیں ہوتا |
دردِ فرقت ہے, سانس آخری ہے |
تجھ سے میرا بَھلا نہیں ہوتا؟ |
ہجر والوں کی رات میں, کچھ بھی |
درد و غم کے سوا نہیں ہوتا |
مجھے تصویر اپنی دے گئے ہو |
ایسا تو آسرا نہیں ہوتا |
خالقِ کُن! اُسے مِرا کر دے |
تیرے کرنے سے کیا نہیں ہوتا |
ہم سے اُمید مت لگاؤ کچھ |
ہم سے کچھ بھی بَھلا نہیں ہوتا |
سر جو اونچا کرے خدا شاہدؔ |
کٹ کے بھی وہ جُھکا نہیں ہوتا |
معلومات