کسی غرض سے وہ میرے دیار میں آیا |
میں سمجھا تھا شاید میرے پیار میں آیا |
تب آیا جب یہ دل غم سے ہو گیا پتھر |
مگر وہ پھر بھی انا کے خُمار میں آیا |
میں نے تھی کھائی قسم تجھ کو بُھول جانے کی |
لبوں پہ نام تو شدتِ بُخار میں آیا |
میں خود سے خود ہی رہتا ہوں ہم کلام اکثر |
یہ دل مرا کسی پُر غم حصار میں آیا |
بے تابی میں بہہ چکی فصیلِ ضبط جمالؔ |
یہ اشکوں کا سیلاب انتظار میں آیا |
معلومات