کوئی ہے جو کرے امداد میری
سنے کوئی تو اب فریاد میری
زمانہ سنگ دل کہتا ہے جن کو
وہ سن کر رو دیئے روداد میری
مجھے یوں چھوڑ کر اے جانے والو
ستائے گی ہمیشہ یاد میری
میں حضرت میرؔ کا شاگرد ٹھہرا
بہت مضبوط ہے بنیاد میری
سخن میں میرؔ سا لہجہ ہے میرے
طبیعت بھی ہے کچھ ناشاد میری
مرے اپنے مجھی کو بھول بیٹھے
مرے دشمن کو آئی یاد میری
میں احسنؔ جا رہا ہوں اب جہاں سے
یہاں تک تھی فقط میعاد میری

0
7