تغیر کی یہ دنیا ہے کہ میں بھی ہوں مکیں اس کا
یقینی بےیقینی میں بھی رہتا ہے یقیں اس کا
بناؤں کیا سجاؤں کیا یہ مٹی کے بتوں کو میں
تخیل نے ہی رہنا ہے جو ہو چہرہ حسیں اس کا
ترے آنے سے جانے تک حسابوں کی ضرورت کیا
جو ملنا ہے یہ مٹی میں جو رہنا ہے یہیں اس کا
مجھے تو اب سمجھ آتی ہے اس پیچیدہ رستے کی
جو آنا بھی کہیں سے ہے کہ جانا بھی کہیں اس کا
ہمایوں ایک دھوکہ ہے یہ دنیا سے محبت بھی
کہ تُو نے یاد رکھنا ہے جو رہنے کا قریں اس کا
ہمایوں

32