تغیر کی یہ دنیا ہے کہ میں بھی ہوں مکیں اس کا |
یقینی بےیقینی میں بھی رہتا ہے یقیں اس کا |
بناؤں کیا سجاؤں کیا یہ مٹی کے بتوں کو میں |
تخیل نے ہی رہنا ہے جو ہو چہرہ حسیں اس کا |
ترے آنے سے جانے تک حسابوں کی ضرورت کیا |
جو ملنا ہے یہ مٹی میں جو رہنا ہے یہیں اس کا |
مجھے تو اب سمجھ آتی ہے اس پیچیدہ رستے کی |
جو آنا بھی کہیں سے ہے کہ جانا بھی کہیں اس کا |
ہمایوں ایک دھوکہ ہے یہ دنیا سے محبت بھی |
کہ تُو نے یاد رکھنا ہے جو رہنے کا قریں اس کا |
ہمایوں |
معلومات