اگرچہ لبوں تک یہ آیا بہت ہے
غمِ دل کو ہم نے چھپایا بہت ہے
اسے تو سمجھ میں کبھی کیوں نہ آیا
جو قصہ وفا کا سنایا بہت ہے
یوں مشکل جدائی کی اپنی جگہ پر
غمِ ہجر مجھ کو یوں بھایا بہت ہے
کچھ اپنے غموں کی بھی تھی اک کہانی
کچھ اس کی ادا نے ستایا بہت ہے
نہ نقصاں نہ گھاٹا کوئی بھی ہوا ہے
کہ سوزِ جگر بھی کمایا بہت ہے
ہے قائم وہ دل میں ابھی بھی ہمایوں
جو داغِ محبت مٹایا بہت ہے
ہمایوں

0
31