وہ ربط جو تھا سانس کا وہ ربط بھی گنوا دیا
وہ تم نے میرے شوق کا ہر آشیاں جلا دیا
وہ لفظ اب نہیں رہے وہ بات بھی نہیں رہی
بیان کا وہ راستہ تو تم نے اب مٹا دیا
وہ تیرے آنے سے مجھے جو مل گئی تھی روشنی
وہ تُو گیا تو کیا گیا وہ دیپ بھی بجھا دیا
وہ منسلک تو تم سے تھیں وہ باغ و گل کی رونقیں
وہ وقت تو گزر گیا وہ غم کا سُر سکھا دیا
وہ خود کو خود میں ڈھونڈنا جو پاگلوں کی سی طرح
وہ تیرے عشق نے مجھے کیا سے کیا بنا دیا
ہمایوں مٹ گیا ہے اب وفا کے تیرے نام پر
وفا بھی تیری مٹ گئی وہ خود کو بھی مٹا دیا
ہمایوں

0
46