دور رہ کر بھی مجھ سے سنبھل جائیں گے
آپ کا کیا پتا تھا بدل جائیں گے
وہ جہاں سے مرے جو نکل جائیں گے
سارے سورج عنایت کے ڈھل جائیں گے
تیرے جیسا ملے گا نہ کوئی ہمیں
ہم سے بہتر کئی تجھ کو مل جائیں گے
اپنی تجویزیں جو تم بتاتے ہو اب
طفلِ نو ہم نہیں جو بہل جائیں گے
اب تو صدقے کروں میں تو شام و سحر
غم جدائی تری کے بھی ٹل جائیں گے
دیکھتے ہیں جو مل کے لگائے شجر
کیا یہ دے کے ہمیں کوئی پھل جائیں گے
ایک تیرا ہمایوں رکے گا سفر
کام سارے جہاں کے تو چل جائیں گے
ہمایوں

41