اپنے غم سے میں کنارہ کر لوں
اب خوشی پر میں گزارا کر لوں
تیرا غم تیرا پتہ دے مجھ کو
غم کو رخصت کا اشارہ کر لوں
بن ترے دنیا بھی کیسی ہو گی
بن ترے اس کا نظارہ کر لوں
میرا ماضی نہیں تھا تُو اس میں
ِفکرِ ماضی میں دوبارہ کر لوں
تیری تعریف کمانے کو میں
اپنی تحقیر گوارہ کر لوں
ہو گیا مجھ سے ہے انجانے میں
کب یہ چاہا تھا خسارہ کر لوں
اے ہمایوں یہ لٹاتے ہو کیوں
تیرے دکھ کو تو میں پیارا کر لوں
ہمایوں

0
55