پکار وہ تڑپ جواں کہاں چلی گئی ہے سب
وہ چاہتوں کی داستاں کہاں چلی گئی ہے سب
وہ خواب تھا خیال تھا کہ خوشنما سا جال تھا
لگن تھی وہ جو جانِ جاں کہاں چلی گئی ہے سب
سخن ترا تھا اک کمال لازوال ادا تری
وہ اب یہاں تو اب وہاں کہاں چلی گئی ہے سب
وہ تیرے جانے سے مری یہ زندگی بدل گئی
وہ چاشنیِ دل و جاں کہاں چلی گئی ہے سب
وہ خود سے جو سوال تھا سوال ہی وہ رہ گیا
وفا تری کی وہ اماں کہاں چلی گئی ہے سب
ہمایوں کی وہ لذتیں فنا ہوئی ہیں تیرے بعد
وہ تیری میری داستاں کہاں چلی گئی ہے سب
ہمایوں

0
48