شبِ غم کا یہ چاند آج کہاں سے آ نکلا |
میرا دل شاید تیری یاد میں جا نکلا |
چھپا رکھا تھا یہ دردِ ستم سینے میں مگر |
میرا آنسو بھی تیری طرح بے وفا نکلا |
میں سمجھتا تھا کہ میں ہی غم کا مارا ہوں مگر |
جس کو بھی دیکھا وہ درد کا اِک دریا نکلا |
صیاد نے جو پوچھا مرے قیدِقفس کا سبب |
میرا جرم و خطا میرا ہی جُرم وفا نکلا |
جمالؔ دعائیں بھی کسی کام نہ آئیں مرے |
مرا دامن بھی مرے دل کی طرح پھٹا نکلا |
معلومات