بولتے دریا بھی گونگے منظروں سے ہوگئے |
جیسے آنکھوں کے نگینے پتھروں سے ہوگئے |
وہ کہ صحرا سے گزرتے تھے تو کھل جاتے تھے پھول |
قہر کیا ٹوٹا کہ بکھرے بادلوں سے ہو گئے |
جن کی پیشانی میں روشن تھیں جہاں کی رفعتیں |
میرے گھر کے راستے میں راستوں سے ہوگئے |
دشت پہنے پھر رہا تھا شہر کا ہر آدمی |
دھوپ کے گنبد میں ہیرے کوئلوں سے ہوگئے |
معلومات