بولتے دریا بھی گونگے منظروں سے ہوگئے
جیسے آنکھوں کے نگینے پتھروں سے ہوگئے
وہ کہ صحرا سے گزرتے تھے تو کھل جاتے تھے پھول
قہر کیا ٹوٹا کہ بکھرے بادلوں سے ہو گئے
جن کی پیشانی میں روشن تھیں جہاں کی رفعتیں
میرے گھر کے راستے میں راستوں سے ہوگئے
دشت پہنے پھر رہا تھا شہر کا ہر آدمی
دھوپ کے گنبد میں ہیرے کوئلوں سے ہوگئے

22